Ad

موسم بھی نہیں بدلا، منظر بھی نہیں بدلا - ”غلام محمد قاصر“


 موسم بھی نہیں بدلا، منظر بھی نہیں بدلا

اُس شہر کو جانے کا ، رستہ بھی نہیں بدلا

تم چھوڑ گئے جیسے، سب ویسا ھی رکھا ھے
بستر کی وھی چادر ، تکیہ بھی نہیں بدلا

ھاں، اب بھی بیٹھے ھیں، دیوار سے لگ کے ھم
گلیاں بھی وھی اپنی، کُوچہ بھی نہیں بدلا

تم کچھ تو نباہ دیتے ، آخر کو محبت تھی
ھم نے تو عقیدت میں، لہجہ بھی نہیں بدلا

ھے شوق سفر ایسا ، اِک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی ، رستہ بھی نہیں بدلا

بے سمت ھواؤں نے ، ھر لہر سے سازش کی
خوابوں کے جزیرے کا، نقشہ بھی نہیں بدلا

”غلام محمد قاصر“
Previous
Next Post »