Ad

محسن نقوی

 

نہ سماعتوں میں تپِش گُھلے نہ نَظر کو وَقفِ عَذاب کر
جو سُنائی دے اُسے چُپ سِکھا جو دِکھائی دے اُسے خُواب کر
ابھی مُنتشر نہ ہو اجنبی، نہ وِصال رُت کے کرم جَتا
جو تِری تَلاش میں گُم ہُوئے کبھی اُن دِنوں کا حِساب کر
مِرے صَبر پر کوئی اجر کیا مری دوپہر پہ یہ ابر کیوں
مُجھے اوڑھنے دے اذِیتیں،، مِری عادتیں نہ خَراب کر
کہیں آبلوں کے بَھنور بَجیں کہیں دُھوپ رُوپ بَدن سَجیں
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چَشمِ تر کو چَناب کر
یہ ہُجُومِ شہرِ سِتمگراں نہ سُنے گا تیری صَدا کبھی
مِری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خُواہشوں سے خِطاب کر
یہ جلوسِ فَصلِ بہار ہے تہی دست یار،، سجا اِسے
کوئی اشک پِھر سے شَرر بنا کوئی زَخم پِھر سے گُلاب کر
محسن نقوی
Previous
Next Post »