Ad

یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا - ‏‎ساحر لدھیانوی


 یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

‏‎اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا

‏‎جس طرح سے تھوڑی سی تِرے ساتھ کٹی ہے
‏‎باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا ہے

‏‎دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے برا کیا
‏‎یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا

‏‎ ویسے تو تمھی نے مجھے برباد کیا ہے
‏‎الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا

‏‎ویسے ہی قیامت ہے تِرے حسن کا جلوہ
‏‎ٹپ ٹپ کے اگر اور نکھر جائے تو اچھا

‏‎اس حسنِ مجسم کی کوئی نیند نہ لوٹے
‏‎کچھ دیر ابھی رات ٹھہر جائے تو اچھا

‏‎جس صبح کی تقدیر میں لکھی ہو جدائی
‏‎اس صبح سے پہلے کوئی مر جائے تو اچھا

‏‎جا کر تِری محفل سے کہاں چین ملے گا
‏‎اب اپنی جگہ اپنی خبر جائے تو اچھا

‏‎ساحر لدھیانوی
Previous
Next Post »