اے مقدر مجھے ترسائے گا آخر کب تک؟ (قتیل شفائی)


 

اے مقدر مجھے ترسائے گا آخر کب تک؟
یا مری بات سمجھ' یا مجھے پاگل کر دے
میرے محبوب کے پیروں کو جو چھینٹا چومے
ایسے چھینٹے کو چھنکتی ہوئی پائل کردے
کیسے ممکن ہے کہ میں حشر کے سورج سے ڈروں
مجھ پہ سایا جو مرے یار کا آنچل کردے
اے مرے حسن خیال اس کو سجانے کیلئے
صبح کو غازہ بنا' رات کو کاجل کر دے
آج پھر جھیل کنارے مجھے تڑپاتا ہے
کاش اس چاند کو پانی میں کوئی حل کردے
اے مقدر مجھے ترسائے گا آخر کب تک؟
یا مری بات سمجھ' یا مجھے پاگل کر دے
وہ مجھے کر تو رہا ہے نظر انداز قتیل
اس کو بھی وقت زمانے سے نہ اوجھل کردے
قتیل شفائی
Previous
Next Post »