کبھی آہ لب پہ مچل گئی کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے (رشید کامل)

کبھی آہ لب پہ مچل گئی کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے
یہ تمہارے غم کے چراغ ہیں کبھی بجھ گئے کبھی جل گئے
میں خیال و خواب کی محفلیں نہ بقدرِ شوق سجا سکا
تیری ایک نظر کے ساتھ ہی میرے سب ارادے بدل گئے
کبهی رنگ میں کبهی روپ میں کبھی چھاؤں میں کبھی دھوپ میں
کہیں آفتاب نظر ہیں وہ کہیں مہتاب میں ڈھل گئے
جو فنا ہوئے غمِ عشق میں انہیں زندگی کا نہ غم ہوا
جو نہ اپنی آگ میں جل سکے وہ پرائی آگ میں جل گئے
تھا انہیں بھی میری طرح جنون تو پھر ان میں مجھ میں یہ فرق کیوں
میں گرفتِ غم سے نہ بچ سکا وہ حدودِ غم سے نکل گئے
رشید کامل
 

 

Previous
Next Post »