Ad

خواہشوں کے زہر میں


خواہشوں کے زہر میں

خواہشوں کے زہر میں ــ اخلاص کا رس گھول کر
وہ تو پتھر ہو گیا ــ دو چار دن ہنس بول کر
دِل ہجومِ غم کی زد میں تھا ـ ـ ـ سنبھلتا کب تلک؟
اِک پرندہ آندھیوں میں رہ گیا ــ پر تول کر
اپنے ہونٹوں پرسجا لے ـ ـ ـ قیمتی ہیروں سے لفظ
اپنی صورت کی طرح ــ باتیں بھی تو اَنمول کر
آج اُس کی حدِ بخشش ہے ـ ـ ـ تیرے سر سے بلند
آج اپنے سر سے بھی اُونچا ــ ذرا کشکول کر
بند ہاتھوں کا مقدر تھیں ـ ـ ـ سبھی کرنیں مـــــگر!
سارے جُگنو اُڑ گئے ــ دیکھا جو مُٹھی کھول کر
شہر والے ـ ـ ـ جھوٹ پر رکھتے ہیں بنیادِ خلوص
مجھ کو پچھتانا پڑا "محسن" ـــــــــــ یہاں سچ بول کر

Previous
Next Post »