Ad

جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں - ساغر صدیقی


 جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں

یاد بُھولے ہوئے یاروں کے کرم آتے ہیں

لوگ جس بزم میں آتے ہیں ستارے لے کر
ہم اسی بزم میں بادیدئہ نم آتے ہیں

میں وہ اِک رندِ خرابات ہُوں میخانے میں
میرے سجدے کے لیے ساغرِ جم آتے ہیں

اب مُلاقات میں وہ گرمی جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں

قُربِ ساقی کی وضاحت تو بڑی مشکل ہے
ایسے لمحے تھے جو تقدیر سے کم آتے ہیں

میں بھی جنت سے نکالا ہُوا اِک بُت ہی تو ہُوں
ذوقِ تخلیق تجھے کیسے ستم آتے ہیں

چشم ساغرؔ ہے عبادت کے تصوّر میں سدا
دل کے کعبے میں خیالوں کے صنم آتے ہیں 

ساغر صدیقی 











Previous
Next Post »